27-Apr-2024 18-Shawaal-1445

Iqbal Aur Fazail-e-Ahlalbait

 Speaker: Dr Raza Hamdani

Record date: 07 Nov 2021 –  علامہ اقبال اور فضائل اہلبیت علیہ السلام
AL-Mehdi Educational Society proudly presents new Executive Refresher Course for the year 2021 under the supervision of specialist Ulema and Scholars who will deliver though provoking lectures Every Weekend.
These video lectures are presented by aLmehdi educational society, Karachi for our youth.

 

?کیا اقبال صرف ایک شخصیت کا نام ہے؟
?کیا علامہ اقبال کو صرف مداحِ اہلِبیت کہا جاسکتا ہے؟
?آپ کو حکیم الامت کیوں کہا جاتا ہے؟
?اقبال کیسے نظریات کے حامل تھے؟
?آپکی نظر میں عشقِ اہلِ بیت کیوں کر کمال کو پہنچ سکتا ہے؟
?کچھ مدحِ اہلبیت، اقبال کی زبانی۔۔
?علامہ اقبال جنابِ سیدہؑ کی فضیلت کیسے بیان کرتے ہیں۔۔؟
?کیا اقبال نے کوئی مرثیہ بھی لکھا؟؟
?فکرِ اقبال ہم میں بھی محبتِ اہلبیت کو اجاگر کرنے میں مدد گار ہوسکتی ہے. .

 

مقرر: ڈاکٹر رضا ہمدانی
خلاصہ درس: علامہ اقبال اور فضائل اہلبیت ع

یہ تمام درس علامہ اقبال کے فارسی اشعار سے دئیے گئے ہیں درس میں بولے جانے والے فارسی اشعار کو یہاں نہیں لکھا گیا ہے اس کے لئے آپ کو وڈیو دیکھنا ہوگی۔

اقبال ایک نظریہ کا نام ہے ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظریے کو باقی رکھا جائے یعنی زندہ رکھا جائے آئیے آج گفتگو اقبال کے نظریات سے شروع ہوتی ہے اور انہی کے اشعار پر ختم ہوگی
آج کا عنوان ہے علامہ اقبال اور فضائل اہل بیت علیہ السلام

فضائل وہ بیان کرتا ہے ہے جو کسی کا مداح ہو مداح اہل بیت ہونے میں اور محب اہلبیت ہونے میں بہت فرق ہے ہے بنیادی بات یہ ہے کہ اقبال محب اہل بیت ہیں۔

اقبال اس نظریے کے قائل تھے تھے کہ دین اور دنیا دو الگ چیزیں نہیں ہے ہے اسی کے تحت علامہ اقبال اقبال اس بات کے قائل تھے کہ عقل اورعشق دو الگ چیزیں نہیں ہیں۔

عشق خام ہو اس کو عقل کہتے ہیں ہیں اور طاقت کمال کو پہنچ جائے تو اسے عشق کہتے ہیں یعنی عقل سے عشق تک کا جو سفر ہے تو ہم اپنی حسیات سے معقولات اور معقولات سے عرفانیات تک کا سفر طے کرتے ہیں۔

توعشق اہل بیت تمہاری وجہ سے نہیں ہے تمہارے اندر تمہاری اپنی ضرورت ہے جو تمہیں کمال تک لے جاسکتی ہے.

اقبال کی نظر میں عشق اہل بیت ع ہی وہ موٹیویشن ہو سکتی ہے جو انسان کو تمام مشکلات سے نبرد آزما ہو کر با آسانی کمال تک کا سفر طےکروا دے۔ اسی لیے اقبال کی نظر میں عشق اہل بیت ع ہماری ضرورت ہے۔

علامہ اقبال اپنے جزبات کا اظہار جناب سیدہ کے لئے اس طرح کرتے ہیں کہ آپ نے سُنے ہونگے
حق کا آئین میرے پاؤں کی زنجیرہے ورنہ کیا ہوتا؟ ورنہ میں سب کام چھوڑ دیتا اور تیری تربت کے گرد چکر لگاتا رہتا ار میں تیری تربت کی خاک پر سجدے کرتا رہتا کہ جناب سیدہ اتنی عظیم ہیں کہ اتنے کمالات اور اختیارات کے باوجود صبر و رضا کا پیکر رہی
اس لئے میں عرض کر رہاہوں کہ علامہ اقبال کو زندہ رکھنا ہماری اپنی زندگی اور بقا ہے
اور ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص شاعری کا فن جانتا ہوں ہو اور مرثیہ نگاری نہ کرے تو یہ ممکن نہیں علامہ اقبال نے مرثیہ بھی کہے ہیں کہ یہ سارا گھرانہ قرآن ہے یعنی ایک طرف تم بائے بسم اللہ دیکھ رہے ہو تو یہ پدر کی طرف اشارہ ہے اورذبح عظیم دیکھ رہے ہو تو یہ پسر کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور وہ شہزادے جو تمام ملتوں کے شہزادے ہیں تمام عالمین کے شہزادے ہیں اور ختم مُرسل کے کاندھے جو ہیں وہ ان کے اُونٹ کا متبادل ہیں اس پر یہ شہزادے سواری کرتے ہیں پھر امام حسین کے بارے میں فرماتے ہیں اگر غیرت مندوں کا عشقکامیاب ہوا ہے تو ان کے خون کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ جتنے شہید ہیں یہ سب تحریر ہیں اور ان کی عزت اُس مضمون کی وجہ سے ہے جو امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ سارا گھرانہ کریم ہے کہ امام حسین نے کربلا میں اپنی رحمت برسائی اور چے گئے، نہیں دیکھا کہ تم احسان کا بدلہ دو گے یا نہیں۔ ت،ہارے لئے اُس نے لالے اُگائے اور چلا گیا۔ لالے یعنی نجات کا راستہ یعنی شہادت کا راستہ کھول دیا پھر اقبال کہتے ہیں کہ یہ جو شمن تمہیں نظر آرہا ہے یہ امام حسین کے خون کی موج سے اُگا ہوا ہے بس اسی طرح سے وہ لاالہ کی بنیاد بن کر چلا گیا۔

آپ نے عمارت بنانی ہے دومنزلہ تو اُسی کے حساب سے بنیاد بنائیں گے اور اگر آپ نے عمارت بنانی ہے پانچ منزلہ تو آپ اسی حساب سے بنائیں گے اور اگر عمارت بنانی ہے سو منزلہ تو بنیاد کیسے بنائِں گے؟ یعنی مظبوط بنائیں گے یعنی اب سمجھ آرہا ہوگا کہ یہ عمارت دین کی عمارت ہے جو رسول خدا نے رکھی تھی اس کی بنیاد لا الہ قیامت تک کے لئے ہیں اور اگر ایک عمارت نے قیامت تک کے لیے بننا ہے تو اس کی بنیاد امام حسین کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا

پھر علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر وہ حُسین سلطنت کے شوق میں آتا تو کیاعورتیں اور بچے بھی ساتھ لاتا ؟ اُس کے دشمن کربلا میں ریت کے ذروں کی طرح لا تعداد تھے اور اُس حُسین کے جو دوست تھے وہ بھی یزداں کی طرح چند ایک تھے اور پھر اقبل کہتے ہیں کہ اُس کی طاقت کو سمجھوکہ جو ابراہیم و اسمائیل نے بنیاد رکھی تھ یہ ہی وہ راز تھا کہ جس نے اُس کی تفصیل بیان کی ہے اور پھر اقبال کہتے ہیں کہ اُس حُسین کی جو تیغ ہے وہ بس عزت دین کے لئے ہے اور اُس کا مقصد سوائے شریعت کے بچانے کے کچھ نہیں ہے اور جتنے بھی راز ہیں خون نے اُس کی تفسیر کردی۔ اگر تمہیں حق اور باطل میں پہچان نہ ہو تو آو کربلا کی طرف اور جان لو کہ کون باطل ہے اور کون حق پر ہے۔

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ تم نے قرآن کی قرات سیکھ لی اور م نے قرآن کی تلاوت سیکھ لی اور تم نے قرات سیکھ لی مگر اگر رمز سیکھنا ہے تو امام حُسین سے سیکھنا ہوگا اور اسی آگ سے ہم نے اپنے شعلوں کو بیدار کر نا ہوگا۔

 

For more details visit:
? www.almehdies.com
? www.facebook.com/groups/almehdies
? www.youtube.com/almehdies
? www.shiatv.net/user/Al_Mahdi_Edu